Home Blog Page 2

22 Urdu Best Quotes

0

 

یہ محبت کے حادثے اکثر دلوں کو توڑ دیتے ہیں تم منزل کی بات کرتے ہو لوگ راہوں میں چھوڑ دیتے ہیں

 

کچھ دل کی مجبوریاں تھیں کچھ قسمت کے مارے تھے ساتھ وہ بھی چھوڑ گئے جو جان سے پیارے تھے

 

گزار دیتا ہو ہر موسم مسکراتے ہوے ایسا بھی نہیں کے بارشوں میں تو یاد آیا نہیں

مجھے صبر کرنے کی دیر ہے تم اپنا مقام کھو دو گے

اب نہیں رہا انتظار کسی کا جو ہوں خود کہ لیے ہوں

علاقہ غیر کو سیراب کر رہی تھی وہ نہر رسیلے ہونٹ کہیں اور خشک ہو رہے تھے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

!بعد میں

0

آسکر ہر روز اپنے طریقے سے سب کچھ کیا کرتا تھا۔ آسکر جو چاہتا کھاتا، جب چاہتا کھیل کھیلتا اور جب چاہتا سوجاتا۔ اگر اس کی ماں اسے اپنی صفائی کرنے یا رات کے کھانے کے لیے نیچے آنے کو کہتی، تو وہ چیختا کہ ‘بعد میں!’ اور جو کچھ وہ کر رہا ہوتا اسے جاری رکھتا۔

ایک دن، آسکر پارک میں اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد اسکول سے دیر سے گھر آیا۔

میں گھر ہوں!’ اس نے دالان میں جمائی لی ۔ ساری دوپہر کھیل کر وہ تھک گیا تھا۔

‘ہیلو، ہنی!’ آسکر کی ماں نے واپس جواب دیا۔

آسکر اگلا کام کرنے چلا گیا جو اس کی روزانہ کی فہرست میں تھا۔ اس نے الماری سے کافی اسنیکس لیے اور پھر سورج غروب ہونے تک ویڈیو گیمز کھیلتا رہا۔ اس کے اردگرد کمرہ انتہائی تاریک ہونے لگا۔ صرف ٹی وی سے روشنی آ رہی تھی ، جس سے ایک آواز پیدا ہو رہی تھی۔

‘اوہ، اوہو!’ آسکر نے کنٹرولر کو صوفے پر مارا۔ اس نے مٹھی بھر کرسپس اٹھائے ۔ ان میں سے نصف اس کے منہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

‘مجھے یہاں ایک موقع دو!’ اس نے کھیل میں اپنے دوستوں سے کہا۔ انہوں نے اونچی آواز میں جواب دیا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں کچن سے چلائی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

‘دوستو یہاں آؤ!’ وہ اسکرین پر چلایا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں نے دہرایا۔

اس بار وہ زور سے چلائی تھی، اور وہ تھوڑی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔

‘ہاں؟!’ آسکر نے اپنا ہیڈسیٹ اتار دیا۔

‘رات کا کھانا تیار ہے!’

آسکر نے آنکھیں گھمائیں جب اس نے اپنا ہیڈسیٹ دوبارہ پہن لیا اور خود کو صوفے پر  برجمان کر لیا۔

‘بعد میں!’ اس نے واپس جواب دیا ۔

بعد میں ، اور آسکر کی ماں اس کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ اس کے کھانے کے لیے کھانے کی پلیٹ لے گئی۔ وہ اچانک دروازے کے اندر ہی رک گئی۔

‘آسکر، کیا تم اس گندگی کو صاف کر سکتے ہو؟’

آسکر نے جتنا زیادہ کھایا تھا، اتنے ہی زیادہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے ارد گرد بکھرے ہوئے تھے۔ وہ صوفے پر جمع  شدہ بچ جانے والے ریپرز اور خالی پیکجوں سے گھرا ہوا تھا۔

آسکر نے اپنی ماں کو دیکھا۔

‘بعد میں!’ وہ ویڈیو گیم کے شور پر چیخا۔

اس کی ماں نے ایک آہ بھری جب وہ گندگی صاف کرنے لگی۔

اگلے دن، آسکر ناراض اور مایوس گھر آیا کیونکہ اسے اسکول میں امتحان مشکل محسوس ہوا تھا ۔ اس نے اپنے آپ کو  لطف اندوز کرنے کے طور پر کچھ کیک کھانے کا فیصلہ کیا۔

آسکر جیسے ہی پہلا نوالہ لینے ہی والا تھا کہ اس کی ماں نے اسے دوسرے کمرے سے بلایا۔ اس نے آہ بھری، اپنا کیک نیچے رکھا اور اپنی ماں سے بات کرنے کے لیے چلا گیا۔

وہ اکھڑا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس کے بازو بندھے ہوئے تھے۔ آسکر جو لفافہ ابھی ابھی گھر لایا تھا وہ پھٹا ہوا تھا، اور اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔

‘آسکر، ہمیں اسکول میں ہونے والی کسی چیز کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔’

اس نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

آسکر جھپٹا مار کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔

آسکر، میں نے تمہاری استانی کا یہ خط پڑھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ اپنے ٹیسٹوں میں دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے دوست کے کام کی نقل کر رہے ہیں۔

آسکر کو اچانک غصہ آگیا۔ اس نے صرف اس لیے نقل کیا تھا کہ اسے اس میں سے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔

‘ خیر ، وہ مجھے اس کی نقل کرنے دیتا ہے!’ اس نے غصے کے ساتھ ایک آہ بھری اور بازو جوڑ لیے۔

اس کی ماں نے بھی ایک آہ بھری لیکن پھر اسے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔

‘ کوئی بات نہیں ، آسکر. دیکھو، اگر آپ جدوجہد کر رہے ہیں، میں مدد کر سکتی ہوں۔ چلو آج رات شروع کرتے ہیں، ٹھیک ہے؟

آسکر تھکا ہوا اور تنگ آچکا تھا۔ سب سے پہلے، اس کی استانی نے اس کے بارے میں اس کی ماں کو بتایا اور پھر اس کی ماں نے اس کی استانی کا ساتھ دیا! وہ اس معاملے سے دور کیوں نہیں رہ سکتی تھی؟

وہ چھلانگ لگا کر اپنے قدموں پر آگیا۔ اس کے ہاتھ پہلوؤں سے جکڑے ہوئے تھے۔

‘بعد میں!’ اس نے چیخ کر کہا۔ وہ بھاگتا ہوا اپنے بیڈ روم میں چلا گیا۔

اس رات کے بعد، آسکر بڑبڑایا جیسا کہ اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر گرایا اور اپنے بستر پر پہلو پر پہلو تبدیل کر رہا تھا ۔ وہ سو نہ سکا۔

ہر ایک کو ہر وقت سب کچھ کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی تھی؟ وہ اسے وہ کرنے کیوں نہیں دیتے جو وہ چاہتا تھا؟ اس کی خواہش تھی کہ سب اس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں ۔ اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ مستقبل میں اپنے لیے سب کچھ کرے گا، چاہے اس کا مطلب امتحان میں دھوکہ دہی ہو۔

اس رات آسکر نے خواب دیکھا کہ وہ اپنا پسندیدہ اسنیکس کھاتے اور دن بھر اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ پارک میں کھیلتا رہا۔

اگلی صبح آسکر گہری نیند سے چونک گیا۔ اس کی کھڑکی کے باہر ایک گرج چمک اٹھی۔ بارش شیشے پر زور سے پڑی۔

‘ماں؟’ آسکر نے خاموش گھر  میں پکارا۔

خاموشی نے اسے جواب دیا۔

وہ نیچے کی طرف بھاگا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ آسکر نے بس کندھے اچکا دیے، کبھی کبھی اس کی ماں کو آخری لمحات میں کام پر بلایا جاتا تھا۔ وہ عام طور پر اسے بتانے کے لیے ایک نوٹ چھوڑ دیتی تھی کہ اس نے اس کا پسندیدہ ناشتہ بنایا ہے اور اسے لپیٹ کر کاؤنٹر پر رکھ دیا ہے۔ اس نے ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی نوٹ یا ناشتہ نظر نہیں آیا۔

‘اوہ اچھا،’ آسکر نے اپنے آپ سے بلند آواز میں کہا۔ اس نے ناشتے کے لیے اپنے پسندیدہ اسنیکس پکڑے۔

آسکر بدحواسی کے ساتھ اسکول چلا گیا، یہ یاد کرتے ہوئے کہ اس دن اسے ایک اور امتحان کا سامنا کرنا  ہو گا۔ جب وہ کلاس میں پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ وہ جس دوست سے عام طور پر نقل کرتا تھا وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے آسکر کو نہیں بتایا تھا کہ وہ وہاں نہیں ہوگا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے اساتذہ کو بھی نہیں بتایا تھا۔ جب آسکر نے ان سے پوچھا تو وہ بالکل بے خبر تھے۔

آسکر بھی اس دن اسکول کے بعد گھر آنے سے زیادہ خوش نہیں تھا۔ امتحان کی وجہ سے وہ ناخوش تھا۔ آسکر کو بارش سے نفرت تھی، لیکن ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ رکنے والی ہے۔ بارش کا مطلب تھا کہ وہ باہر رہنے اور کھیلنے کے قابل نہیں تھا، لیکن جس دوست کے ساتھ وہ گھومنا چاہتا تھا وہ بھی غائب ہو گیا تھا۔ تو ویسے بھی اس کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہیں تھا۔

‘ٹھیک ہے، کم از کم میں اب گھر ہوں،’ اس نے سوچا۔

‘میں واپس آ گیا ہوں!’ اس نے خالی گھر میں اعلان کیا۔

اس کی ماں ابھی تک کہیں نہیں ملی تھی۔

آسکر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ یہ عجیب تھا۔ عام طور پر، اگر اس کی والدہ زیادہ دیر تک گھر سے دور رہتی تو وہ اس کی دیکھ بھال کے لئے کسی اور کا انتظام کیا کرتی تھی۔

اس نے کندھے اُچکائے۔

‘میں بعد میں اس کی فکر کروں گا،’ اس نے خود سے کہا۔

اس نے اپنا پسندیدہ ویڈیو گیم کھیلنا شروع کیا۔ اس نے بہت سارے اسنیکس کھائے، رات کا کھانا چھوڑ دیا اوروہ اس رات دیر سے سویا۔

صبح ہو گئی۔ آندھی اور بارش نے آسکر کی کھڑکی پر زور سے دستک دی اور ٹکرائی۔

‘ہفتہ کا دن ہے!’ آسکر ایک پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ اٹھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ اور اس کی ماں کئی ہفتوں سے ایک دن باہر جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا لیکن جب وہاں کوئی نہیں تھا تو رک گیا۔ آخرکار اسے فکر ہونے لگی۔ اس دن آسکر نے ہر وہ جگہ دیکھی جہاں اس کی ماں جا سکتی تھی۔ اس نے اپنے جاننے  والوں سب کو بلایا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اس نے شہر کے ارد گرد پوچھا، لیکن بارش کی وجہ سے شاید ہی کوئی آس پاس تھا۔ آسکر جن لوگوں کو جانتا تھا اور ڈھونڈ سکتا تھا، ان میں سے کسی نے اس کی ماں کو نہیں دیکھا تھا۔

آسکر مایوسی محسوس کرتے ہوئے گھر واپس آیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ رو رہا ہے جب وہ باورچی خانے میں تمام گندگی کے نیچے کھانے کے لئے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ گھر تباہی کا شکار تھا۔ آسکر کو اتنے کوڑے کے نیچے اپنے پسندیدہ کھلونے بھی نہیں مل سکے۔

آسکر اس رات سونے کے لیے بہت پریشان تھا۔ اس نے کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھا۔

‘میں معافی چاہتا ہوں. مجھے بہت افسوس ہے،’ اس نے بلند آواز میں کہا۔ ‘میرا مطلب ہر اس شخص کے لیے نہیں تھا جو میری پرواہ کرتا ہے کہ وہ چلا جائے۔ میں ایک وقفہ چاہتا تھا، لیکن اس طرح نہیں! میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ معمول پر آجائے۔ براہ کرم، براہ کرم، میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ ایسا ہو۔

اگلی صبح، آسکر کے سوئے ہوئے چہرے پر چمکتا ہوا سورج چمکا۔ وہ تازگی محسوس کرتے ہوئے اٹھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے سب کچھ بھول گیا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا، ایک وقت میں دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا ،  گرنے سے بچنےکی کوشش کرتے ہوئے جب اس نے اپنی ماں کو پکارا۔

اسے دیکھتے ہی وہ لینڈنگ پر رک گیا۔ وہ مسکرائی جب وہ اسے گلے لگانے کے لیے بھاگا۔

‘ آپ واپس آگئی ہو! آپ واپس آگئی ہو!’ اس نے رو کر پکارا۔

وہ ہنسی اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ ‘کیا تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے، جان؟’

اس نے اپنا سر ہلایا جب اس نے اسے  زور سے گلے لگایا اور وہ زور سے ہنسی،

آسکر نے اس ہنسی کو بہت یاد کیا تھا۔

‘اب چلو۔ جمعہ ہے، اسکول کے لیے تیار ہو جاؤ ورنہ پھر دیر ہو جائے گی۔’

آسکر نے اس کے گال پر بوسہ دیا۔

‘بعد میں!’ اس کی زبان کی نوک پر تھا۔ یہ اتنی پرانی عادت تھی۔ تاہم، اس نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا، ‘ٹھیک ہے! میں ابھی تیار ہوتا ہوں۔

Best Deep Quotes in Urdu

0

 

جو لوگ رب کو پانا چاہتے ہیں وہ اپنی خواہشات کو چھوڑ دیتے ہیں

اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمر رواں

کاش کوئی ایسی ہوا چلے کون کس کا ہے پتہ چلے

 

لوگ کہتے ہیں کہ پتھر دل کبھی رویا نہیں کرتے

اُنہیں کیا خبر پانی کے چشمے پتھروں سے ہی نکلا کرتے ہیں

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر،

ہنس کے کہنے لگی اور آپ کو آتا کیا ہے.

 

 

واللہ کیا منظر ہوگا تم، تمہارے آنسو، اور میرے میت

 

 

Attitude quotes in Urdu

0

Attitude Quotes in Urdu

Using attitude quotes in Urdu is a great approach to get in the mood. Being a good example for others is one thing, but setting a good example for oneself is quite another. If you don’t set the best example for yourself, nothing else matters. You need to have a positive outlook on yourself and other people if you wish to have a prosperous future.
Little else will do. Girls should be told that they have nothing to be ashamed of because they are making every effort to improve themselves by the best attitude quotes in Urdu. Positivity and gratitude are the finest ways to demonstrate this mindset.
Boys’ attitude quotes in Urdu should encourage them by reminding them that they can accomplish anything they set their minds to. They should be told that there are no restrictions on what they may accomplish and that nothing is off-limits.
Always put in your day’s work today. What will last forever is now. Today, you can learn a lot. By keeping these attitudes in mind, you can be sure that you are doing everything you can for your child’s future.

Below are the best attitude quotes

 

انسان کی تربیت کا فرق ہوتا ہے

ورنہ جو سن سکتا ہے

وہ سنا بھی سکتا ہے

باپ کی دولت پر گھمنڈ کرنے کا کیا مزا مزا تو

تب ہے جب دولت اپنی ہو اور فخر باپ کرے۔

جس معاشرے میں اچھی اور معیاری تعلیم مہنگے داموں بیچی جائیں

وہاں قوم کی فکر کرنے والوں کے بجاے

ذریعہ معاش کی فکر کرنے والے ہی پیدا ہوتے ہیں

بولنا سبکو آتا ہے بس کسی کا دماگ بولتا

کسی کا اخلاق بولتا ہے اور کسی کی زبان

جو باتیں تکلیف دیں انھیں دل میں رکھنے کی بجاے پاؤں کے نیچے رکھیں

 

Albert Einstein Quotes in Urdu

0

انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہے،نہ
کہ اس کے مطابق کیا ہونا چاہیے

 

میرا اس پر کامل یقین ہے کہ خدا کائنات کا نظام
چلانے کے لئے پانسہ نہیں پھینکتا

 

میں کبھی مستقبل کے بارے میں نہیں
سوچتا کیونکہ وہ فوراََہی آجاتا ہے

 

کامیاب شخص بننے کی کوشش نی کریں بلکہ

اصولوں کے حامل شخص بننے کی کوشش کریں

زندگی میں کامیابی اتنی حاصل کرو کے

ایک بار پیچھے موڑ کر دیکھو تو حیران رہ جائو

میں خوش رہتا ہوں کیونکہ میں کسی سے کوئی امید نہیں رکھتا

 

 

گھر کی قدر

0

مجھے میرے احساس نے ماردیاتھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ زندگی کی کوئی خوشی میرے پاس نہیں تھی۔ پریشان ہو کر رہ گیا تھا۔ دولت تو بہت دور کی بات ہے، کوئی گیسو کسی آنچل کا سہارا بھی نہیں تھا۔ اس ناامیدی کی کیفیت میں اپنے ایک جاننے والے اطہر بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کو میں نے ہمیشہ خوش ہی دیکھا تھا۔ میں نے جب ان سے ان کی ہر دم خوشی کا راز پوچھا تو انہوں نے جواب دیا بہت آسان تھا۔ میاں ایک شعر شن لو۔اسی میں راز چھپا ہوا ہے۔ چلیں سنا دیں ۔ میں نے بے دلی سے کہا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔‘ انہوں نے شعر سنا دیا۔ شعر واقعی بہت اچھا تھا اور ایک فارمولہ بتا دیا گیا تھا کہ اس پرعمل کر جاؤ تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ اطہر بھائی۔ شعر تو بہت اچھا ہے۔ میں نے تعریف کی۔ میاں فارمولہ بھی اچھا ہے ۔ تم ابھی سے اس پر عمل کرو۔ ایک ہفتے کے بعد آ کر بتاؤ۔ کیا ہوا؟ میں اطہر بھائی کے پاس ایک خاص کام سے گیا تھا۔ اس دن میری جیب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ میں اطہر صاحب سے ایک ہزار روپے لے لوں گا ۔اس کے بعد وہیں سےٹیکسی کر کے راستے سے کھانے پینے کی چیز یں لے کر گھر واپس آ جاؤں گا۔ کم از کم دو دنوں تیک کا خرچ چل ہی جاۓ گا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ابھی تک شادی نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ بتاؤ کہ اگر ہزار روپے مل جا ئیں تو تم خوش ہوجاؤ گے؟ظاہر ہے اطہر بھائی ۔اس سے کئی کام نکل جائیں گے- تو بس میں تمہیں پیسے نہیں دے رہا۔ تم کو ابھی سے اس فارمولے پر عمل کرنا ہے ۔ دیکھ لینا تم نے اس شعر کو اپنے ذہن میں اتارلیا تو پھر تمہیں کوئی غم بھی نہیں ہوگا۔“ میں ان سے پیسے لیے بغیر اس شعر کی سوغات لے کر واپس آ گیا۔ گھر آ کر مجھے نفیسہ کا خیال آیا۔ میں نے نفیسہ نام کی ایک لڑکی سے محبت کی تھی جو یہ چاہتی تھی کہ میں اس کے باپ سے جا کر ملوں۔ میں نے اسے ایک شعر بھی سنایا تھا۔ میری حیات کی راہوں میں پیچ وخم ہیں بہت می خوب سوچ لے پہلے جو میرے ساتھ چلے نفیسہ کے باپ سے ملاقات کو میں ابھی تک ٹال رہا تھا لیکن اب ان سے ملنا ضروری ہو گیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر تھے۔ ان کے ذریعے کوئی جاب بھی ہوسکتی میں نے نفیسہ کو فون کر کے کہا۔ ”میرا خیال ہے کہ میں تمہارے ابو سے جا کر مل ہی لوں۔ ہاں ہاں چلے جاؤ۔ اس نے کہا۔” میں نے ابو سےبات کی ہوئی ہے۔بس ان کو تمہارے آنے کا انتظار ہے۔ وہ تمہارا انتظار ہی کر رہے ہیں ۔ تم ان سے جا کر مل لو ۔“ نفیسہ کے والد ایک اعلی سرکاری عہدے دار تھے۔ بہت دھاک تھی ان کی ۔ ان کے پاس جاتے ہوۓ جھجک ی ہورہی تھی لیکن نفیسہ نے مجبور کر کے مجھے ان کے دفتر بھیج دیا۔ اس نے اپنے ابو سے میرے بارے میں بات کر لی تھی۔ میں دوسرے دن بہترین ڈریسنگ کر کے ان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ اپنی پوری شان کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی تھے۔آؤ صاحب زادے، آؤ۔نفیسہ نے مجھے تمہارے بارے میں بتا دیا تھا۔ جی جناب ۔ میں اس سے زیادہ کیا کہ سکتا تھا۔ بیٹھ جاؤ ۔ انہوں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں مؤدب ہو کر سامنے بیٹھ گیا۔ زندگی میں پہلی بارایسا انٹرویو دے رہا تھا۔ تم خدانخواستہ میری بیٹی سے عشق تو نہیں کرنے لگے ہو؟ انہوں نے ایک ایسا سوال کیا کہ میں چکرا کر رہ گیا۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی باپ نے براہ راست ایسا سوال ہونے والے داماد سے بھی نہیں کیا ہوگا۔ شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یا نہ میں جواب دو۔ عشق کیا جناب ، بس نفیسہ مجھے بہت پسند ہے ۔ میں اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ ابھی ہماری گفتگو اتنی آگے نہیں بڑھی کہ تم خوش رکھنے یا نہ رکھنے کی بات کرو۔ انہوں نے کہا۔ میں ایک بار پھر چکرا کر رہ گیا۔ عجیب بے دھڑک انسان تھے۔ کام کیا کرتے ہو؟ انہوں نے پوچھا۔ جاب کی تلاش میں ہوں جناب ۔ میں نے کہا۔  مجھے امید ہے کہ بہت جلد کوئی ملازمت مل ہی جاۓ گی ۔ اور اس وقت تک کیا اپنی بیوی کو بھوکا رکھو گے؟“ نہیں جناب، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو خود کھاؤں گا اس کو بھی کھلاؤں گا ۔“ جب تمہارے پاس خود کھانے کونہیں ہے تو اس کو کہاں سے کھلاؤ گے؟ ” اس کی فکر نہ کر یں۔ شادی کے بعد نفیسہ میرا مسئلہ ہوگی۔“ لیکن شادی سے پہلے تک تو میرا مسئلہ ہے نا؟ اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تم جیسے نا کارہ انسان سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے ۔ میرے سینے پر پر چھیاں ہی چل کر رہ گئیں۔ نفیسہ میرے لیے سب کچھ تھی۔ زندگی میں اب تک سواۓ محرومیوں کے اور کیا ملا تھا۔ کوئی خوشی نہیں۔ اب وہ بھی ہاتھ سے چلی گئی تھی۔ دل چاہا کہ در و دیوار سے لپٹ لپٹ کر آنسو بہاؤں۔ اور اسی وقت اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔خوشی کو چھوڑ دے تم بھی نہ ہوگا ۔“ کلیجے میں ٹھنڈک کی پڑ گئی۔نفیسہ نہیں ملتی ناسہی اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ میں کیوں ایک روگ پال کر بیٹھ جاؤں ۔خوشی کو چھوڑ دے۔اور میں نے خوشی کو چھوڑ دیا۔ میں نے نفیسہ کو فون کر کے مطلع کر دیا تھا کہ میں زندگی کی راہ میں اس کا ہم سفر نہیں بن سکوں گا۔ وہ کچھ دیر کی بک بک کے بعد خاموش ہوگئی۔شاید اسے بھی احساس ہوگیاتھا کہ اس کے باپ کا فیصلہ درست ہی تھا۔ اب زندگی کے کٹھن شب وروز میرے سامنے تھے۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔ میں بھی بھی اپنا کھانا خود ہی بنالیا کرتا تھا۔ ورنہ عام طور پر سامنے والے ہوٹل سے جا کر کھا لیتا تھا- میں محلے کی دکان پر پہنچ گیا۔ دکان دار مجھے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔ شاید اسے خیال آیا ہو کہ میں اس کا پچھلا قرض ادا کر نے آیا ہوں- تنویر بھائی, چاۓ تو چلے گی نا؟ اس نے پوچھا۔ بس دومنٹ میں آ جاۓ گی ۔ نہیں بھائی ، مجھے اس وقت چاۓ کی ضرورت نہیں ، میں نے کہا۔ ” مجھے تو بس دوکلو آٹا۔ ایک کلو چینی کھانےکا تیل دے دو ۔ ابھی لو۔ پچھلا حساب تو لے کر آۓ ہوتا ؟ نہیں بھائی، میں تو یہ بھی ادھار لے کر جاؤں گا۔ میں نے کہا۔ اچانک وہ بھڑک اٹھا۔ اس کی خوش اخلاقی ختم ہوگئی۔ رہنے دو بھائی رہنے دو۔ کمال ہے پچھلا قرض ادانہیں کیا اور چلے آرہے ہیں ادھار لینے ۔ اب کیا اس محلے میں بے وقوف بنانے کو ایک میں ہی رہ گیا ہوں۔ جاؤ بھائی کوئی اور دکان ڈھونڈو۔ اس کی بک بک سن کر بہت دکھ ہوا۔ سوچا تھا کہ سامان مل جاۓ گا تو دو چار وقتوں کے کھانے ایک ساتھ بنا کر رکھ لوں گا اچانک ایک بار پھر اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو در اصل تم ہے۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔۔ میں نے خوشی چھوڑ دی اور کچھ لیے بغیر ہی واپس آ گیا۔ ہشاش بشاش کوئی غم نہیں تھا۔ دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ گھر کے دروازے ہی پر نیازی صاحب کھڑے ہوۓ دکھائی دے گئے۔ نیازی صاحب اپنی نوعیت کے ایک کمال انسان ہیں ۔ بہت خوش اخلاق اور بہت ہی شاہ خرچ ۔ انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ان کو دیکھ کر ایسالگا کہ خدا نے اس وقت فرشتہ بھیج دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نیازی صاحب نے میرا کس کس موقع پر ساتھ دیا تھا۔ جس کوارٹر میں رہ رہا ہوں اس کا ایڈوانس بھی نیازی صاحب نے دیا تھا۔ میں ان سے جا کر لیٹ گیا۔ بھائی اچانک کیسے آگئے؟ میں نے پوچھا۔ وبس تنویر صاحب! تمہاری یاد آئی تو تم سے ملنے چلا آیا۔ انہوں نے کہا۔ ”ارے یہ تو میری خوش نصیبی ہے۔ آئیں اندر آئیں۔ ہم اندر آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ نیازی صاحب کچھ الجھے ہوئے تھے ۔ گھر میں اتنا چاۓ کا سامان تھا کہ دو چار کپ چاۓ بن سکتی تھی۔ میں نے انہیں چاۓ لا کر دی۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا۔ تنویر صاحب, میں ایک عجیب کشمکش میں ہوں۔“ خیریت تو ہے، کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ ہا۔ یہ ظاہر خیریت ہے لیکن اپنے وجود میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ کیسی ہلچل ؟ بھئی بات میں ہے کہ میں لوگوں کا ساتھ دیتارہا ہوں ۔ آج بھی اس ارادے سے گھر سے نکلا ہوں لیکن ایک عجیب بات ہے۔ وہ کیا؟ میرا دل دھڑکنے لگا۔ بات یہ ہے کہ کسی کی مدد یا کسی کے کام آجانا میری خوشی رہی ہے۔ میں احسان تو نہیں کہتا کیونکہ اس میں میری خوشی ہے لیکن ہوا یہ کہ جن کو میں نے اپنے طور پر خوشیاں دیں۔ انہوں نے غم دیے۔ ایک قول ہے کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ میں خوشی کی جستجو میں رہتا تھا اور ایسی خوشی مجھے کسی کے کام آ کرہی ملتی تھی ۔ آج بھی گھر سے پچاس ہزار لے کر نکلا ہوں۔“ ارے نیازی صاحب! یہ تو آپ کی بڑائی کی دلیل ہے۔ ورنہ اس زمانے میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں مجھے ایک شعر سنادیا۔“ واہ۔ یہ تو اچھی بات ہوئی ۔ویسے وہ شعر کیا تھا؟“ تنویر صاحب ۔ یقین کر یں کہ اس شعر کو سنتے ہی ایسا لگا کہ میرے سرسے سارے بوجھ اتر گئے ہوں۔ سمجھ میں آ گیا کہ میں کہاں بھٹک رہا ہوں ۔ ” واہ صاحب۔ پھر تو بہت مبارک شعر ہوا۔ مجھے بھی سنائیں۔ شعر ہے۔

خوشی کی جستجو دراصل غم ہے۔

خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔

ایک بار پھر وہ لعنتی شعر میرے سامنے آ گیا تھا۔ ایک بات میں آپ سے کہنے آیا ہوں۔ نیازی صاحب نے کہا۔ ہوسکتا ہے کہ میں نے اب تک آپ کا ساتھ دیا ہو لیکن اب میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا۔ کیونکہ اس شعر کا مفہوم سمجھ میں آ گیا ہے۔ ارے نیازی صاحب ۔ میں بوکھلا کر بولا ۔لعنت بھیجیں اس شعر پر ۔ آپ تو نیکی کیے جائیں ۔ نہیں تنویر صاحب۔ اب اس قسم کی کوئی نیکی میں نہیں کر سکوں گا ۔ اس انقلابی شعر نے میری سوچ بدل دی ہے۔ میں یہی کہنے حاضر ہوا تھا۔ دل چاہا کہ یا تو اپنا گلا گھونٹ لوں یا اس شاعر کوزہر دے دوں جس نے بی شعر کہا ہوگا۔ نیازی صاحب کچھ دیر بیٹھ کر اس شعر پر لیکچر دے کر روانہ ہو گئے اور میں اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔ خیر وہ دن تو کسی نہ کسی طرح گزار لیا۔شام کو بھوک نے جب بے تاب کیا تو میں اپنی خالہ کے پاس چلا گیا۔ وہ بھی اسی شہر میں اور میرے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔ وہ کباب بہت اچھےبناتی تھیں ۔ ان کے کباب کھا کر لطف آجا تا تھا۔ خالہ مجھے دیکھتے ہی خوش ہو گئیں ۔ ارے بیٹا تو بالکل صحیح وقت پر آیا۔ میں نے تیری پسند کے کباب بنائے ہیں۔“ کیا بات ہے خالہ آپ کی ۔ میں خوش ہو گیا خالہ ہو تو آپ جیسی ہو میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ سوچ رہا تھا کہ کتنی دیر بعد کچھ کھانے کو ملے گا ۔ اس دوران وہی شعر میرے کان میں گونجنے لگا۔ ۔ خالہ میں نے آواز لگائی۔ خالہ میں جارہا ہوں۔ ایک کام یاد آ گیا ہے۔ ارےبیٹا کیاب تو کھا تا جا۔ انہیں خالہ پھر سہی اور میں اس مکان سے باہر آ گیا۔ باہر آتے ہی بھوک سے چکر سا آ گیا تھا ایک درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کسی نے مجھے آواز دی۔ ارے تنویر صاحب کہاں کھڑے ہیں؟ کیسے میں اسلم صاحب؟” میں نے پوچھا۔ کیا بتاؤں ؟ دل میں کیسی ہلچل مچی ہوئی ہے ؟ خیریت تو ہے نا کیا ہوا؟ موصوف شاعر بھی تھے۔ میرے پاس آکر بولے۔ خدا کی ۔ اس وقت کچھ اور مانگ لیتا تو شاید بھی مل جاتا۔ قبولیت کی گھڑی تھی لیکن میں نے آپ کو مانگا اور آپ مل گئے ایک بہت زبردست غزل رات کو کہی ہے۔ ایک مشاعرے میں پڑھنی ہے۔ لیکن میرا یہ دستور ہے کہ مشاعرے سے پہلے میں اپنے کسی دوست کو سنا کر دار لے لیتا ہوں ۔ تا کہ کچھ ہو گیا ہو تو وہ اصلاح کر دہے ۔ ارے صاحب میں اس قابل کہاں ہوں۔ میں گھبرا کر بولا ۔ شعرزده یہ کیا بات کر دی۔ آپ جیسا باذوق اور کہاں لے گا۔ چلیں سامنے والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ کس مشکل زمین میں غزل کہی ہے۔ چلیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔اب میں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ہوٹل میں لے آۓ ،انہوں نے دو چاۓ کے آرڈر کے ساتھ کچھ بسکٹ بھی منگوا لیے۔ اس وقت مجھے پیٹ میں کچھ سہارے کی شدید ضرورت بھی تھی۔ بسکٹ سامنے آئے اور اسی وقت وہ کم بخت شعر یاد آ گیا۔ اس وقت خالی پیٹ کچھ کھانا میرے لیے بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ورنہ میں بے ہوش ہی ہو جاتا۔ لیکن پھر وہی شعر خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔ اس موقع پر بھی اس شعر نے میرا پیچھانہیں چھوڑا۔ لیں جناب۔“ اسلم صاحب نے بسکٹوں کی طرف اشارہ کیا۔ آپ کیوں یوں ہی بیٹھے ہیں؟“ نہیں اسلم صاحب۔ اس وقت کچھ نہیں لے سکوں گا۔ میرے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔“ “اوہو۔ پیٹ میں گڑ بڑ ہے تو آپ کو چاۓ بھی نہیں پینی چاہیے۔ جی جی ہاں۔ میری جان نکلی جارہی تھی۔ انہوں نے ایک لمحہ انتظار کے بغیر ایک چائے کا آرڈر کینسل کر دیا اور خود چاۓ اور بسکٹ کھانےلگے ۔ جبکہ میرا یہ حال تھا کہ میں غم اور خوشی کے فلسفے میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور اپنی بے تکی غزل سنانے لگے۔ ایک تو غزل بے تکی۔ پھر اتنی طویل جیسے پوری اردو شاعری لکھ کر لے آۓ ہوں۔ میں کچھ دیر تو بہت حوصلے سے سنتا رہا۔ پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور میں بے ہوش ہو کر لڑھک گیا۔ ۔ اسلم صاحب مجھے پکار رہے تھے۔ کچھ اور آوازیں بھی تھیں۔ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے جارہے تھے لیکن مجھے ہوش نہیں تھا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد ہوش آیا ہوگا۔ میں ایک بستر پر لیٹا تھا۔ نقاہت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی پہلے محسوس ہورہی تھی۔ میرے بستر کے آس پاس کچھ اور بستر بھی تھے۔ جن پر مریض لیٹے ہوۓ تھے۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر ایک مہربان صورت کی نرس میرے پاس آ گئی۔ اب کیسی طبیعت ہے؟ اس نے پوچھا۔ کون لایا ہے مجھے؟ تم کہیں بے ہوش ہو گئے تھے۔ لوگ اٹھا کر لائے لوگ لائے ہیں ؟ کمزوری کی وجہ سے یہ حال ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال تھا۔ تم اب ٹھیک ہو تو جاسکتے ہو لیکن کس کمبخت کا دل تھا کی وہاں سے جائے اس لیے وہیں پڑا سوچتا رہا کہ اس طرح کیسے گزر بسر ہو گی – اچھا تھا کہ گاؤں میں ہی رہتا – ابّا کی بات مان لیتا اور آنسہ سے شادی کر لیتا – کیا ہواجو وہ میٹرک پاس تھی – ابھی بھی کچھ نہ بگڑا تھا اس لیے ہسپتال سے نکل کر سیدھا پانچ سال بعد گھر پہنچا اور ابّا کے قدموں می سررکھ دیا – جوان بیٹے کو سینے سے لگانے میں دیر انہوں نے بھی نہیں کی تھی – ابھی تو کھڑی ٹیکسی کا کرایہ بھی ادا کرنا تھا اور امی کے ہاتھ کا بنا کھانا میز پر منتظر تھا – کیا ہے نا خالی شعرکہنے اور سننے سے پیٹ نہیں بھرتا – اب گھر میں سب کے ساتھ سکوں سے رہوں گا اور ابا کے ساتھ زمینوں پر جایا کروں گا – جوانی میں جاب کرنے اور خود سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا جنوں بھی ختم ہو گیا اور دوستوں کی مصیبت میں دوستی بھی دیکھ لی-

قوم سبا پر اللہ کے عذاب کا واقعہ

0

اہل سرسار کی ایک قوم جسے قوم سبا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں کے اندر زندگی گزار رہی تھی۔ یہ قوم ایک عظیم تہذیب و تمدن کی مالک تھی۔
حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی باعظمت حکومتوں کے بعد ان کی حکومت زبان زد خاص و عام تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ گندم کے مغز سے آٹا پس کر روٹیاں پکاتے تھے۔

لیکن اس ے برعکس وہ اس قدر اصراف کرنے والے اور ناشکرے تھے کہ انہی روٹیوں کے ساتھ بچوں کا پاخانہ صاف کرتے تھے۔ بعد ازاں ان آلودہ روٹیوں کو اکٹھا کرنے سے ایک پہاڑ بن گیا تھا۔

پھر ایک صالح شخص نے وہاں سے گزرتے ہوئے ایک عورت کو دیکھا۔ جو روٹی کے ساتھ بچے کے پاخانے کے مقام کو صاف کر رہی تھی۔ اس شخص نے عورت سے کہا تیرے اوپر افسوس۔

خدا سے ڈر کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا تیرے اوپر اپنا غضب ڈھائے اور تجھ سے اپنی نعمت چھین لے۔ اس عورت نے جواب میں مذاق اڑایا اور مغرورانہ انداز میں کہا جاؤ جاؤ۔ گویا کہ مجھے بھوک سے ڈرا رہے ہو۔ جب تک سرسار جاری ہے مجھے بھوک سے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہے۔

کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا نہ تھا کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں پر اپنا غضب ڈھایا۔ پانی جو کہ زندگی کی بنیاد ہے، ان لوگوں سے چھین لیا۔ یہاں تک کہ قحط نازل ہوا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کی ذخیرہ کی ہوئی تمام غذا ختم ہوگئی۔

آخر کار وہ مجبور ہوگئے کہ انہیں آلودہ روٹیوں پر ٹوٹ پڑے۔ جو ان لوگوں نے اکٹھی کر کے پہاڑ کے مانند ڈھیر لگایا ہوا تھا۔ بلکہ وہاں سے روٹی لینے کے لیے صف لگتی۔ تاکہ ہر کوئی وہاں سے اپنے حصے کی روٹی لے سکے۔

کفران نعمت قحط اور ان کی بدحالی کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ سورہ نحل کی آیت نمبر ایک سو بارہ اور ایک سو تیرہ میں یوں ارشاد ہوتا ہے۔

اور اللہ نے اس بستی کی بھی مثال بیان کی ہے۔ جو محفوظ اور مطمئن تھی۔ اس کا رزق ہر طرف سے باقاعدہ آ رہا تھا۔ لیکن اس بستی کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا۔ تو خدا نے انہیں بھوک اور پیاس کا مزہ چکھایا۔ صرف ان کے ان اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رہے تھے۔

اور یقینا ان کے پاس رسول آیا۔ تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا۔ تو پھر ان تک عذاب آ پہنچا کہ یہ سب ظلم کرنے والے تھے۔

اسی قوم سبا کے بارے میں ایک اور واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی زراعت کو بہتر طور پر کاشت کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی خاطر، بلق کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا بند معرب تعمیر کیا ہوا تھا۔

سوراخ اور دوسرے پہاڑوں سے گزرا ہوا پانی اس بند میں آ کر وافر مقدار میں جمع ہو جاتا تھا۔ قوم سبا نے اس پانی سے صحیح طور پر استفادہ کرتے ہوئے وسیع و عریض اور بہت سے خوبصورت باغات لگائے اور کھیتی باڑی کو رونق بخشی۔

ان باغات کے درختوں کی شاخیں اس قدر پھلوں سے لدی ہوئی ہوتی تھیں کہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سر پر ٹوکری رکھ کر ان کے نیچے سے گزرتا تو پھل خود بخود ٹوکری میں گرنا شروع ہو جاتے اور قلیل مدت میں ٹوکری تازہ پھلوں سے بھر جاتی۔

لیکن نعمتوں کی کثرت نے انہیں شکر کرنے کے بجائے سرمست اور غافل کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے درمیان بہت بڑا طبقاتی نظام وجود میں آ چکا تھا۔ ان میں سے صاحب اقتدار لوگوں نے کمزوروں اور ضعیفوں کا خون چوسنا شروع کر رکھا تھا۔

یہاں تک کہ ان لوگوں نے خدا سے ایک احمکانہ التماس کیا۔ جس کا ذکر سورہ سبا کی آیت نمبر انیس میں ملتا ہے۔

انہوں نے کہا خدایا ہمارے سفروں کے درمیان فاصلہ زیادہ کر دے۔

انہوں نے اللہ تعالی سے یہ التماس اس لیے کیا تاکہ غریبوں بے نواح لوگوں، عمرہ اور ثروت مند ان کے ہمراہ سفر نہ کریں۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ آبادیوں کے درمیان خشکی ہو اور فاصلہ بہت زیادہ ہو۔ تاکہ تہی دست اور کم آمدنی والے لوگ ان کی طرح سفر نہ کر سکیں۔

اللہ تعالی نے ان مغرور پیٹ کے پجاریوں پر اپنا غضب نازل کیا۔ بعض روایتوں کے مطابق ان مغرور لوگوں کی آنکھوں سے دور صحرائی چوہوں نے معرب نامی بند کی دیواروں پر حملہ کر کے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا۔

ادھر سے بارشیں زیادہ ہوئیں۔ جن کی وجہ سے سیلاب آگیا اور اس بند میں پانی بہت زیادہ اکٹھا ہو گیا۔ اچانک بند کی دیواریں ٹوٹیں اس سے ایک بہت بڑا سیلاب آیا۔ جس میں تمام دیہات, آبادیاں, مال مویشی, باغات, کھیتیاں, ان کے محل اور گھر پانی میں غرق ہو کر نابود ہو گئے۔

ان کے باغات اور زراعت میں سے صرف بیری کے درخت اور کچھ جھاڑیاں بچی تھیں۔ خوش الہان پرندے وہاں سے کوچ کر گئے تھے۔ جبکہ الوؤں اور کوؤں نے قوم سبا کے کھنڈرات میں اپنے گھونسلے بنا تھے۔ اس بات کا ذکر سورہ صبا کی آیت نمبر پندرہ اور سولہ میں ملتا ہے۔ اور آخر میں سورہ صبا کی آیت نمبر سترہ میں قرآن کریم میں اس واقعہ کا یوں نتیجہ نکالا ہے۔

 یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزا دی ہے اور ہم نا شکروں کے علاوہ کسی کو سزا نہیں دیتے ہیں”۔”

ایک کفن چور کا عجیب واقعہ

0

ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہونے جا رہے تھے۔ کہ راستے میں ان کی نظر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو مسلسل روئے جا رہا تھا۔

حضرت علی شیر خدا نے اس بندے سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں بہت ہی بڑا گناہ کر بیٹھا ہوں۔ مجھے اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں۔

آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میری معافی کی سفارش فرما دیں۔ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ اس شخص کو ساتھ لے کر حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوئے۔

جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گئے۔ تو حضرت علی زار و قطار رو رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی آپ کیوں رو رہے ہو؟

حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے پاس آ ہی رہا تھا کہ راستے میں ایک شخص کو بہت ہی زیادہ روتا ہوے دیکھا۔

تو اس کی حالت دیکھ کر مجھے بھی رونا آگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ شخص کہاں ہے؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شخص باہر کھڑا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔ تو وہ بندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو کر اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بندے سے پوچھا اے نوجوان کیا ہوا ہے؟ تم اتنا کیوں رو رہے ہو؟

اس نے جواب دیا یارسول اللہ مجھ سے بہت ہی بڑا گناہ ہو گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت بڑی ہے۔

اس بندے نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ خدا کی قدرت بڑی۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو نے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ بندے نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے شرک کا ارتکاب نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے کسی بندے کو قتل کیا ہے۔

اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی میں نے کسی کو بھی قتل نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے تم اتنا زیادہ رو رہے ہو۔

پھر اس شخص نے اپنا سارا قصہ سنایا۔ اس نے کہا یارسول اللہ میں کئی سالوں سے کفن چوری کر رہا ہوں۔ میں مردوں کے کفن چوری کر کے ان کو فروخت کیا کرتا تھا۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اس سے اپنا پیٹ پالتا تھا۔

کہنے لگا کہ کچھ دن پہلے ایک لڑکی دفن کی گئی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق اس کا کفن اتارا اور وہاں سے جانے لگا۔ تو مجھ پر شیطان غالب آگیا۔ اس نے میری نیت بدل دی۔ میں نے اس لڑکی کے ساتھ زنا کیا۔ جب میں زنا کر کے اٹھنے لگا تو میں نے ایک آواز سنی کہ جیسے وہ لڑکی بول رہی ہے۔

اے بدبخت بندے تو نے مجھے مردوں کے درمیان ننگا کیا۔ تو کل قیامت کے دن بدکاروں اور زانیوں میں تیرا شمار ہوگا۔ اللہ تجھے بھی سب کے سامنے ننگا کرے گا۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اس لڑکی کی آواز کا مجھ پر ایسا اثر ہوا ہے کہ مجھے اب اپنے آپ پر اللہ تعالی کا غضب محسوس ہوتا ہے۔ میں خدا کی پکڑ میں ہوں۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا سارا قصہ سنا۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے واقعی بہت ہی بڑا گناہ کیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جب یہ الفاظ نکلے کہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔

تو وہ شخص روتا ہوا باہر نکل گیا اس نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بہت ہی ناراض ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارکہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو میری بربادی کا مزید سبب بن جائے۔ وہاں سے نکل کر وہ شخص جنگل اور پہاڑوں کی طرف چلا گیا۔

وہ شخص کئی روز اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہا اور اللہ تعالی سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔ اس کو ہر وقت وہ آواز سنائی دیتی تھی وہ ہر وقت اللہ تعالی سے دعائیں مانگتا رہا۔ وہ شخص کئی روز معافی مانگتا رہا تو خدا نے اس بندے کی توبہ قبول فرمائی۔ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔ اور سلام پیش کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے والا، رزق دینے والا اور اپنی مخلوق کو معاف کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔

تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ میں نے اس نوجوان کی توبہ قبول فرما لی ہے۔ میں نے اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے۔

پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو اس شخص کے پاس بھیجا کہ اس شخص کے پاس جا کر اس کو یہ بتاؤ کہ اللہ تعالی نے تیری توبہ قبول فرمالی ہے۔ اللہ تعالی نے تیرے سب گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔

ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ

0

عرب کے قبیلے میں ایک غیر مسلم شادی شدہ عورت رہا کرتی تھی۔ اس کا شوہر بہت بڑا بزنس مین تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سنا کہ ملک عرب یعنی مکہ میں اللہ کے آخری نبی جو اللہ کے محبوب نبی ہیں۔

ان پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ جس کا نام ہے “سورۃ الفاتحہ”۔ جس میں ہر بیماری سے شفا موجود ہے۔ وہ جس پر بھی دم کی جاتی ہے یا پڑھ کر پھونکی جاتی ہے۔ وہ انسان اچھا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں بے شمار برکات ہے۔

اس میں اب عقیدے کی بات ہے۔ مسلم ہو یا غیر مسلم اللہ پاک جس کے دل میں ایمان کی روشنی ڈالنا چاہے۔ اللہ کی قدرت کا تو آپ سب کو اندازہ ہو گا۔

اب کسی شخص سے اس عورت نے سورۃ فاتحہ سیکھ لی۔ پھر جب اس نے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھا۔ تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جب بھی یہ سورۃ پڑھتی تھی۔ اللہ تعالی اس کے بگڑے کاموں کو سنوار دیتا۔

ایک دن اس کے بیٹے کو ایک خطرناک زہریلے بچھو نے کاٹ لیا۔ بڑے بڑے حکیموں، طبیبوں کو بلوایا گیا۔ سب نے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ اس بچھو کا زہر بہت خطرناک ہے۔ اس بچے کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تمہارا یہ بچہ بس کچھ ہی دیر کا مہمان ہے۔

ماں کا رو رو کر برا حال تھا اور شوہر اپنے خداؤں کی عبادت کر رہا تھا۔ ان سے مدد مانگ رہا تھا۔ پھر جب کوئی حل نہیں نکلا۔ تو اس عورت کو یاد آیا کہ سورۃ فاتحہ کے بارے میں اس نے پڑھا ہے کہ اس میں ہر بیماری سے شفا ہے۔

اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر میں اسے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کروں۔ تو کیا میرا بچہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے اس عورت کو ایمان کی طرف لانا تھا۔ اس کے دل میں اسلام کی محبت مزید پیدا کرنی تھی۔ تو اس کی زبان میں تاثیر دے دی۔

جب اس نے اس سورۃ کو پڑھ کر اس جگہ پر دم کیا جہاں بچھو نے کاٹا تھا۔ تو اس کا لڑکا اٹھ کر بیٹھ گیا اور جب اس نے سورۃ فاتحہ کو پانی پر دم کر کے پلایا۔ تو وہ اٹھ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے کسی بچھو نے کبھی کاٹا ہی نہیں تھا۔

اس کا شوہر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی طبیب نے اور کسی حکیم نے اسے ٹھیک نہیں کیا۔ تو تم نے ایسا کیا عمل کیا۔ جو یہ بچہ ٹھیک ہوگیا۔ اس نے کہا کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایک سورۂ ہے۔ جو ہر بیماری کو ٹھیک کر دیتی ہے۔ بس وہ مجھے یاد تھی۔ میں نے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کیا اور اس کا پانی پلایا۔

تو دیکھو کیسے ٹھیک ہوگیا ہمارا بچہ۔ اس کا شوہر بجاۓ خوش ہونے کے اس سے ناراض ہوگیا کہ یہ تم کیا جادو ٹونے کر رہی ہو۔ اس کی بیوی کہنے لگی زندہ صحیح سلامت ہے ہمارا بچہ ورنہ ہم سے بچھڑنے والا تھا۔ اس نے کچھ نہ سنا اور اپنی بیوی کو ڈانٹنے لگا۔ کیونکہ اسے اسلام سے نفرت تھی۔

جب اس کی بیوی یہی عمل کرنے لگی۔ تو اس کو اپنی بیوی سے بھی نفرت ہو گئی۔ اب اس نے اس پر ظلم کرنا شروع کر دیا۔ ہر روز اس کو مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اب میں نے تیرے منہ سے یہ سورۂ سنی۔ تو یاد رکھنا تیری کھال کھینچ لوں گا۔ اس کو اللہ کے کلام پر بالکل یقین نہیں تھا۔ جبکہ اس کی بیوی کو اللہ کے کلام پر یقین ہو گیا۔

اب اس عورت کو اللہ تعالی نے کس طرح مدد کی یہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ اس عورت کا شوہر جب گھر سے کام کرنے کے لیے نکلا۔ نکلتے وقت جب اس نے اپنا جوتا پہنا تو اس میں وہی بچھو مجود تھا۔ جس نے اس کے بیٹے کو کاٹا تھا۔ اس کے ڈنگ سے وہ بچہ تو بچ گیا۔ مگر خود نہ بچ سکا۔

کیونکہ جب بچھو نے اس کو کاٹا تو زہر پورے جسم میں پھیل گیا۔ اور تڑپ تڑپ کے وہیں دم توڑ گیا۔ خاندان میں یہ خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اب شوہر دنیا سے جا چکا تھا۔

شوہر کے مرتے ہی اس کے گھر میں تو نوبت فاقوں تک آ گئی۔ وہ عورت قرض دار ہو کر رہ گئی۔ وہ بہت پریشان تھی۔ دل میں پھر وہی بات آئی کہ میں سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی ہوں۔ کیا پتا میری پریشانیاں بھی دور ہو جائیں۔

پھر وہ زور زور سے سورۃ فاتحہ پڑھنے لگی۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی رہی اور اتنے اعتماد اور یقین سے پڑھتی رہی۔ جس کا کوئی حساب ہی نہیں تھا۔

جب کوئی بندہ اللہ تعالی سے امید لگاتا ہے تو اللہ تعالی اپنے بندوں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ سات دن کے اندر اندر اس کو خوشخبری مل گئی کہ اس کے کاروبار کو سنبھالنے کے لیے اس کے شوہر کا دوست آ گیا ہے۔

جب دوست کو خبر ملی کہ دوست کی بیوہ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ تو وہ اس کی بیوہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ فکر نہ کریں۔ وہ میرے بھائی کی طرح تھا۔ میں آپ کی مدد کروں گا اور جو بھی پریشانیاں ہیں وہ سب دور ہو جائیں گی۔

پھر اس شخص نے اس عورت کا سہارا بن کر اس کا پورا کاروبار سنبھال لیا۔ پھر دھیرے دھیرے جیسے زندگی پہلے تھی ویسے ہی ہو گئی۔ اس کے شوہر کے دوست نے اس عورت کو سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے سن لیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیا پڑھ رہی ہیں۔

کیا یہ کوئی منتر ہے؟ جس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے بھی سکھائیے! اس پر وہ عورت کہنے لگی یہ کوئی منتر نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید جو ان کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہے۔ یہ اس میں سے ایک سورت ہے۔ جس کا نام سورۃ فاتحہ ہے۔

پھر کہنے لگی مجھے تو اس پر بہت یقین ہے۔ میں نے کسی سے یہ سورہ فاتحہ سیکھ لی تھی اور اب میں چلتے پھرتے یہ سورت پڑھتی رہتی ہوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی۔ اگر اتنا ہی اس سورت کو مانتی ہے۔

وہ مزید کہنے لگا کہ ایک سورت کی اتنی تاثیر ہے۔ تو پورے قرآن کی کتنی تاثیر ہوگی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ میں مسلمان تو ہو جاؤں۔ لیکن میرا شوہر نہیں مانتا تھا۔

اس شخص نے کہا کہ اب تو آپ کا شوہر بھی نہیں ہے اور ایک سورت کے ساتھ آپ کی محبت دیکھ کر میں اتنا زیادہ متاثر ہوا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ ہم دونوں قرآن مجید سیکھیں گے اور ضرور پڑھیں گے۔ وہ کہنے لگی جی! آپ نے بالکل صحیح کہا اور یوں وہ دونوں مسلمان ہوگئے۔

حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ

0

ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے شاگرد کے ساتھ ایک سفر پر جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ آرام کی غرض سے رکے اور شاگرد سے پوچھا تمہاری جیب میں کچھ ہے۔ شاگرد نے جواب دیا “جی میرے پاس دو درہم ہیں”۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر شاگرد کو دیا اور فرمایا یہ تین درہم ہو جائیں گے۔ قریب ہی آبادی ہے تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آؤ۔

شاگرد چلا گیا اور راستے میں واپس آتے ہوئے سوچنے لگا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے۔ جبکہ روٹیاں تین ہیں۔ ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسی علیہ السلام کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی۔ لہذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھا لوں۔

چنانچہ اس نے راستے میں ہی ایک روٹی کھا لی اور باقی دو روٹیاں لے کر حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ حضرت عیسی علیہ السلام اور شاگرد نے جب کھانا کھالیا۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے شاگرد سے پوچھا کہ تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھی۔

شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی دو روٹیاں ملی تھی۔ ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی۔ حضرت عیسی علیہ السلام خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک دریا آیا شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا اے اللہ کے نبی ہم دریا ابور کیسے کریں گے۔

جبکہ یہاں تو کوئی کشتی بھی نظر نہیں آ رہی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا گھبراؤ مت میں آگے چلوں گا تو میرا دامن پکڑ کر پیچھے چلتے آنا۔ خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کر لیں گے۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا۔

اللہ کے حکم سے آپ نے دریا اس طرح سے عبور کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے۔ شاگرد نے دیکھ کر کہا میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ہوں۔ آپ جیسا صاحبہ اعجاز نبی پہلے کبھی معبوث ہی نہیں ہوا۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تیرے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ شاگرد نے جواب دیا جی ہاں! میرا دل نور سے بھر گیا ہے۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے۔ تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھی؟

شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں صرف دو ہی تھی۔ پھر حضرت عیسی وہاں سے آگے چل دیے راستے میں ہرنوں کا ایک گول گزر رہا تھا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک ہرن کو اشارہ کیا۔ تو وہ آپ کے پاس چلا آیا۔ آپ نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔

جب دونوں گوشت کھا چکے۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا کہ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا۔ ہرن زندہ ہو گیا اور واپس دوسرے ہرنوں سے جا ملا۔ شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہوگیا اور کہنے لگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور استاد عطا فرمایا۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ شاگرد نے کہا اے اللہ کے نبی میرا ایمان پہلے سے دگنا ہو چکا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا پھر بتاؤ روٹیاں کتنی تھی۔ شاگرد نے پھر وہی جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں بس دو ہی تھی۔

عیسی علیہ السلام پھر آگے کی جانب چل پڑے۔ ایک جگہ پر قیام کیا۔ تو دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس آدمی کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی تھی۔

یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا تیسری روٹی میں نے کھائی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور جاتے ہوئے فرمایا تینوں اینٹیں تم لے جاؤ اور یہ کہہ کر عیسی علیہ السلام وہاں سے روانہ ہو گئے۔

اب لالچی شاگرد اینٹوں کے پاس بیٹھ کر یہ سوچنے لگا۔ انہیں کیسے گھر لے جایا جائے۔ اسی دوران کچھ ڈاکوؤں کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں۔ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں۔ لہذا ہر ایک شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آئے گی۔

اتفاق سے وہ تینوں ڈاکو بھی بھوکے تھے۔ انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دے کر کہا کہ شہر قریب ہی ہے۔ تم وہاں سے روٹیاں لے کر آؤ اور کھانا کھانے کے بعد ہم اپنا اپنا حصہ تقسیم کر لیں گے۔

چنانچہ وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا۔ اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں۔ تو باقی دونوں ساتھی مر جائیں گے اور میں تینوں اینٹوں کا اکیلا مالک بن جاؤں گا۔

جبکہ دوسری طرف اس کے دونوں ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے ساتھی کو قتل کر دیں۔ تو ہمارے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی۔ جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا۔ تو انہوں نے منصوبے کے مطابق اس پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔

قتل کرنے کے بعد انہوں نے خوشی میں سوچا کہ اب کھانا کھا لیں۔ ہمیں کھانا بھی زیادہ مل گیا اور سونا بھی۔ پھر جب انہوں نے روٹیاں کھائیں۔ تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے وہی مر گئے۔

پھر جب واپسی پر حضرت عیسی علیہ السلام اسی راستے سے گزرے۔ تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں۔ جبکہ پاس چار لاشیں پڑی   ہیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری اور پھر فرمایا دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔